جمعرات 4 دسمبر 2025 - 15:41
مادر شہداء حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا

حوزہ/حضرت اُمّ البنین سلام اللہ علیہا وہ عظیم اور باوقار خاتون تھیں کہ جن کے دامن سے آفتاب ولایت شمس امامت امیر کائنات امام علی مرتضیٰ علیہ السلام کو چار شموس ایثار و آفتابان وفا فرزند ملے، جو اپنی پوری عظمت کے ساتھ تاریخ کے افق پر جلوہ گر ہیں۔ مورخین کا بیان ہے کہ سید العرب امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بھائی نساب عرب جناب عقیل سے فرمایا: “اے بھائی! میرے لئے ایسی خاتون تلاش کرو جو شجاع خانوادے سے ہو اور اسے شجاعت وراثت میں ملی ہو، تاکہ اس کے ذریعہ مجھے شجاع بیٹا حاصل ہو۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "خدا ہمارے چچا عباس (علیہ السلام) پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے! انہوں نے کیا ہی بہترین امتحان دیا! کس درجہ ایثار کیا اور آزمائش کے تمام مراحل کو انتہائی کمال کے ساتھ طے کیا۔ ہمارے چچا عباس (علیہ السلام) کا وہ بلند مقام و مرتبہ ہے کہ خود شہیدانِ راہِ خدا بھی اُن کی منزلت پر رشک کرتے ہیں۔"

ایسی جوانمردی! ایسا خلوص! ایسی بے مثال فداکاری! ہم تو صرف عمل کے ظاہری پیکر کو دیکھتے ہیں، عمل کی اصل روح کو نہیں دیکھتے کہ اس کے باطن میں کتنی غیر معمولی عظمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔"

روز تاسوعا (9 محرم الحرام 61 ہجری) حضرت عباس علیہ السلام مولا ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کی خدمت میں تھے۔ اسی دوران دشمن کے سرداروں میں سے ایک شخص آیا اور آواز دے کر کہنے لگا: "عباس بن علی اور ان کے بھائیوں کو بلاؤ!" حضرت عباس علیہ السلام نے اس کی آواز سن لی، مگر یوں ظاہر کیا جیسے بالکل سنا ہی نہ ہو، نظر انداز کر دیا۔ وہ اپنے مولا امام حسین بن علی علیہ السلام کے حضور اس قدر ادب میں غرق تھے کہ مولا کے دشمن کو جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ جب خود مولا نے فرمایا: "اسے جواب دو، چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔" تو آپ خیمہ سے باہر آئے اور دیکھا کہ وہ شمر بن ذی الجوشن ملعون ہے۔ شمر، ماں کی طرف سے ایک دور کی قبیلائی نسبت کی بنیاد پر، جب کوفہ سے آیا تھا تو اپنے گمان میں ابو الفضل عباس علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے لئے امان نامہ لے کر آیا تھا۔ اسے خیال تھا کہ گویا اس نے کوئی بڑا احسان کیا ہو۔ جب اس نے اپنی بات کہی تو عباس علیہ السلام نے جلال میں اسے ڈانٹ کر فرمایا: "خدا تجھ پر اور اس پر بھی لعنت کرے جس نے یہ امان نامہ تیرے ہاتھ میں دیا ہے! تُو نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟ میرے بارے میں کیا گمان کیا ہے؟ کیا تجھے یہ وہم ہوا کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے امام، اپنے آقا حسین بن علی علیہ السلام کو یہاں چھوڑ کر تیرے پیچھے چل پڑوں گا؟"

پھر فرمایا: "وہ دامن جس میں ہم پلے بڑھے ہیں، وہ آغوش جس میں ہم پروان چڑھے ہیں، اس نے ہمیں اس طرح کی تربیت نہیں دی ہے۔"

حضرت اُمّ البنین سلام اللہ علیہا وہ عظیم اور باوقار خاتون تھیں کہ جن کے دامن سے آفتاب ولایت شمس امامت امیر کائنات امام علی مرتضیٰ علیہ السلام کو چار شموس ایثار و آفتابان وفا فرزند ملے، جو اپنی پوری عظمت کے ساتھ تاریخ کے افق پر جلوہ گر ہیں۔ مورخین کا بیان ہے کہ سید العرب امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بھائی نساب عرب جناب عقیل سے فرمایا: “اے بھائی! میرے لئے ایسی خاتون تلاش کرو جو شجاع خانوادے سے ہو اور اسے شجاعت وراثت میں ملی ہو، تاکہ اس کے ذریعہ مجھے شجاع بیٹا حاصل ہو۔

جناب عقیل نے حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کا انتخاب کیا اور شادی ہو گئی۔ اللہ نے اپنے ولی جنہیں اولیاء کا سردار اور اوصیاء کا سلطان بنایا تھا اور اور ان کو وہ عظمتیں اور رفعتیں عطا کی تھیں کہ ان کی قدم بوسی کو ہر فضیلت اپنے لئے فضیلت سمجھتی ہے، کو وہ چار بیٹے عطا کئے جو وفا و شجاعت اور ایثار و شہادت کے سلطان تھے۔ جن میں سب سے بڑے عبد صالح خدا، مطیع نبوی، مظہر جلال علوی، بحر شجاعت، محرم اسرار حسینی، قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام تھے۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کے چاروں بیٹے میدان کربلا میں رکاب حسینی میں شہید ہوئے اور اللہ کے اولیاء، احباء، اصفیاء اور اَوِدّاء میں شامل ہو کر دین خدا اور پنجتن کے انصار میں شامل ہوئے اور معصوم امام سے طہارت و کامیابی کی سند حاصل کی۔

روز عاشور جب اصحاب کام آ گئے اور بنی ہاشم کی باری آئی تو حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے چھوٹے بھائیوں سے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ مجھ سے پہلے میدان جنگ میں جاؤ تاکہ میں اپنے بھائیوں کی شہادت کا اجر حاصل کروں۔ یکے بعد دیگرے تینوں بھائی میدان میں گئے، جہاد کیا اور جام شہادت نوش کیا، اس کے بعد خود حضرت عباس علیہ السلام بھی شہید ہو گئے۔

حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا اگرچہ میدان کربلا میں نہیں تھیں لیکن اس وقت زندہ تھیں۔ آپ نے چار بہادر بیٹوں کا غم برداشت کیا۔

جب مدینہ میں آپ کو خبر دی گئی کہ اے مادرِ وفا! آپ کے چاروں فرزند کربلا میں راہ خدا میں امام حسین علیہ السّلام کی رکاب میں شہید ہو گئے۔ تو روایات کے مطابق عالم یہ تھا کہ کبھی راہ عراق کے کنارے اور کبھی بقیع میں بیٹھ کر اپنے شیروں کو یاد کر کے گریہ کرتی تھیں۔ آپ کے نوحہ و ندبہ میں وہ درد تھا کہ مروان جیسا سنگ دل دشمن اہل بیت بھی اپنے آنسو نہ روک پاتا تھا۔

آپ کا نوحہ تھا:

لا تدعونی ویک ام البنین

تذکرینی بلیوث العرین

کانت‏بنون لی ادعی بهم

و الیوم اصبحت و لا من بنین

مجھے امُّ البنین کہہ کر نہ پکارو کہ اس سے مجھے میرے شیر بیٹے یاد آتے ہیں۔ کبھی وہ میرے شیر بیٹے تھے کہ جن کے سبب مجھے ام البنین کہا جاتا تھا۔ لیکن اب ان میں سے کوئی باقی نہیں رہا۔

کبھی اپنے فرزند حضرت عباس علیہ السلام کو یاد کر کے نوحہ پڑھتی تھیں‌:

یا من رای العباس کر علی جماهیر النقد

و وراه من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد

انبئت ان ابنی اصیب براسه مقطوع ید

ویلی علی شبلی امال براسه ضرب العمد

لو کان سیفک فی یدیک لما دنی منه احد

اے وہ جس نے عباس (علیہ السلام) کو دیکھا تھا کہ وہ فوجوں پر شیر کی طرح حملہ آور تھا اور اس کے پیچھے حیدر کے فرزند، شیر دل جوان کھڑے تھے۔ مجھے خبر دی گئی ہے کہ میرا بیٹا سر پر زخم کھا کر شہید ہوا اور وہ اس وقت بے دست تھا—ہائے میری مصیبت!

میرے شیر بچّے کے سر پر عمودِ آهن مارا گیا، (اے عباس) اگر اس وقت تیرا تلوار پکڑنے والا ہاتھ سلامت ہوتا، تو کسی میں تیرے قریب آنے کی جرات نہ تھی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha